مجھے کسی پہ اعتبار نہیں دوست؟؟ #فہیم_علی سے

                     “مجھے کسی پہ اعتبار نہیں دوست”

میں یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا پاس قریب اپنے دکان میں بیٹھ کے، کیا انسان ہے کیا خیالات ہے، اس مڈل کلاسیے سوچ پہ بھی اپنی ہنسی آئی، کیاے پیسوں کے چارم نے ہمیں اندھا کر دیا ہے، کیسا ہم رشتہ ، ناطہ ، خلوص ، وفاداری، عزت،  غیرت  وقار اور سچے کھرے پہ پیسہ پیسہ کر رہے لیکن مجال ہوں اس کم ظرف کو نصیب ہوا ہو ۔۔ بندر کو انسان، بکری کو گائے، گدھے کو گھوڑا، رکشے کو ٹرک، مہران کو بی ایم ڈبلیو بنانے میں اس کا کتنا زیادہ عمل دخل ہے، جاہل کو اپنا اپنا مزاج، کم پڑھے لکھے کو تعلیم اتنی ضروری نہیں، موٹاپا کوصحت مند، ظالم سے مظلوم تک کے یہ سارے کام، پیسہ کا ہے


۱- شکیل کسی کام سے راستے جا رہا تھا، احمد اپنے چار دوستوں کے ساتھ کھڑا تھا، پاس سے گزرتے ہوئے شکیل نے سلام کیا اور کاروبار کا احوال پوچھا، روناچارونا جان چھڑا لی اور شکیل کو اپنا راست کی صبر آزما تلوین کی، شکیل کے جانے بعد کے حالات: کیا یار ایسا جڑ رہا ہے جیسا میرا ساتھ حصہ دار ہے، اوہ جا بھائی اپنا کر ایڈا تو سلام دین دا پتر، آتا جاتا سلام کرکے جائے گا ہی ہی ہی ، ایک بلند قہقہ دوستوں کا اور تائیداً سر بھی ہلا رہے


۲۔ منیر بازار جارہا تھا، آج پیدل چلتا ہوں گاڑی سے بھی عاجز آگیا ہوں چلتے ہوئے سوچا، راستے میں خوش گپیوں میں مصروف احمد اپنے دوستوں کے ساتھ، احمد کیسا ہے بلایا۔ احمد اپنا راستہ چھوڑ کے منیر بھائی کہتا ہوا دور سے بغل گیر ہونے کے لئے ہاتھ کھول دئیے۔ کاروبار کا پوچھا کیوں بھئی دھندا کیسا ہے؟ احمد نے تفصیل بتانی چائی لیکن منیر نے معذرت کی بھئی پھر ہوگی ملاقات میں جلدی میں ہوں، منیر کے جانے کے بعد کے حالات: دوستوں سے احمد مخاطب ہے،اوہ بھئی عظیم انسان ہے یار، پرواہ ہی نہیں گاڑی یا نوکر چاکر کی، ہمارے جیسوں سے بھی سلام دعا، دیکھا تو نے کیسا گلے ملا بھائی کو تیرے، بڑی گپ شپ ہے اپنی” 

Post a Comment

0 Comments