سکالر شپ فراڈ , Scholarship Scam


طالبعلم کو چونا لگانا (ٹھگنہ) بہت آسان کام ہے، میں سمجھتا ہوں جتنا پیسہ تعلیم دینے والے اداروں اور ہسپتالوں نے کمایا شائد ہی باقی کوئی شعبہ ایسا ہو جو اس کا ROI میں مقابلہ کر سکے، واضح رہے میں ایک استاد اور ڈاکٹر کی بات نہیں کر رہا بلکہ ان مالکان کی بات کر رہا ہے جو چار کمروں میں ایک کالج کھولتے ہیں اور بعد میں چار پانچ سال بعد گروپ آف کالجز کے مالک بن جاتے ہیں۔

طالبعلموں کو ٹھگنے کا ایک نہایت ہی مستعمل طریقہ آجکل مارکیٹ میں آیا ہے اور وہ ہے سکالر شپ اور تو اور، اشتہار آتے ہیں فلی فنڈڈ سکالرشپ، یعنی آپ آسڑیلیا، ترکی اور کینیڈا جائیں وہاں پہ آپ کے لئے ٹرانسپورٹ فری، کھانا رہائش فری، کتابیں کاپیاں فری، فیس معاف اور جیب خرچ بھی۔ کون بدقسمت طالبعلم ہو گا جو انکار کرے گا اس نعمت کا؟ 

لیکن یہ دراصل نعمت ہوتا کب ہے؟ یہ تو نری ذلالت ہے، دھوکہ دہی اور فراڈ ہے، ایسا ہی ایک اشتہار گزشتہ تین سالوں سے متواتر ایکسپریس اخبار میں آ رہا ہے، اشتہار کی ہیڈنگ کچھ یوں ہوتی ہے “ کینیڈا جانے کا سنہری موقعہ، ہاتھ سے نہ جانے دیں” یا پھر ایسے ہوتا ہے “ تعلیم اور روزگار ایک ساتھ” ۔ یہ ایسے نعرے ہے کہ اچھے سے اچھا بھی ٹریپ ہو جائے۔

آج ہی کہ دن مجھے لاہور گارڈن ٹاؤن برکت مارکیٹ سے ایک ایجنٹ کی کال آئی کہ سر آسٹریلیا جانے کا سنہری موقعہ ہے سب کچھ فری ہے یونیورسٹی سٹائپنڈ بھی دے گی وغیرہ وغیرہ، میں نے بھی دلچسپی ظاہر کی کہ جی ذرا کھل کے بتائیے کون کون سی یونیورسٹیز ہیں آپ کے پینل پہ، انھوں نے جو لسٹ بتائی اس کا سکرین شاٹ میں نیچے کمنٹ میں لگا رہا ہوں، 


اسی کمپنی نے کچھ ہی دن پہلے فیس بک پہ ترکی کا اشتہار دیا کہ ترکی میں ماسٹر یا پی ایچ ڈی کرے اور مکمل فری، ساتھ میں باقی مرچ مصالحہ بھی۔ میں نے سوچا پتہ تو کریں کہتے کیا ہے جب میسج کیا تو جو یونیورسٹیز کے نام مجھے بتائے میں حیران رہ گیا کہ اتنی بڑی یونیورسٹی کو کیا ضرورت جو ہم تھوبڑوں کو ایسی سکالرشپس دیں؟ 

میں نے کراس چیک کے لئے جب ترکی کی ان یونیورسٹیز سے رابطہ کیا تو انھوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم ایسا کچھ بھی آفر نہیں کر رہے اور مزید یہ کہ اس ایجنٹ کے خلاف بھی کاروائی کرتے ہیں کہ یہ کیوں ہمارا نام استعمال کرتا ہے۔

میں چونکہ اس راستے میں بہت دفعہ گر چکا ہوں لہذا اب اندازہ ہو چکا ہے کہ سچ اور جھوٹ کیں فرق ہوتاہے، اس کا ایک اسان فارمولہ یہ ہے کہ جب کبھی آپ ایسے ایجنٹ سے ملیں تو وہ آپ کو ایک ہے بات کرتا ہے کہ “سر تیس/چالیس ہزار پہلے دینے ہیں جو کہ نان رفنڈیبل ہیں”، بس سمجھ جائیں یہ فلم ہے ٹوٹل۔ 

اگر کبھی پھر بھی پتہ نہیں لگ رہا ہو تو ایک دفعہ اس متعلقہ یونیورسٹی کو اپروچ کریں، ٹوئٹر پہ میسج کریں یا ای میل کریں جو ایک یا دو دن کے اندر ضرور بالضرور جواب دیتے ہیں پھر اسی جوابی ای میل کی روشنی میں اگلا قدم اٹھائیں ۔۔ 

٭فہیم الر حمٰن٭


Facebook

Post a Comment

0 Comments