مطمع نظر “ سوشانت کی خودکشی کی ایک وجہ پر میری تحریر”

“مطمع  نظر”

میرے نزدیک کسی بھی جاندار کے لئے ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے گردوپیش سے بے فکر ہوجائے یعنی کہ اس کا اثر قبول نہ کرے، کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ والی کیاری میں آگ ہو اور آپ ایک تناور ، سرسبز درخت  بن رہے ہو؟ ہاں دو صورتوں میں ممکن ہے اوّل، مدہوشی ہو ، دوم، سائیں لوکی ہو (پاگل )۔

انسان جن لوگوں کی محفل رکھتا ہے جن کی صحبت سے اثر لیتا ہے اگر تو ان کا زاویہ زندگی کے بارے میں مثبت ہو ، تو مثبت رہی گی آپ کی سوچ اور فکربھی، اگر اس میں قنوطیت کا غلبہ ہو گا، بغاوت پن ہو گا تو یقیناً آپ بھی ایسا ہی  نظریہ رکھیں گے۔ 

ہم لوگ سو سو  میل دور بیٹھے لوگوں سے گپ شپ کرتے ہیں ان کی باتیں سنتے ہے اپنی سناتے ہیں لیکن پاس بیٹھے کا علم نہیں ہوتا، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ سے دنیا کے کونے کونے کی خبر گیری کرتے ہیں ، مبارکبادیں بانٹتے ہیں ، تعزیتیں کرتے ہیں، غمی خوشی میں شریک ہونے کی دعویداری  کرتے ہیں ہر موقع پہ پیغامات بھجواتے ہیں،  اگر کسی کو نظر انداز کرتے ہیں تو وہ پہلو میں بیٹھا ہوتا ہے اور وہی ہماری توجہ کا مرکز اور طالب ہوتا ہے  جن سے ہم راوبط استوار کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں  ان کا کچھ نہیں جاتا اگر آپ کو کچھ ہو بھی جاتاتا ہے تو۔

میں انسان دوستی پہ یقین رکھتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ سننا چاہئیے کم سے کم بولنا چاہئییے، ایک دوسرے کو سننا چاہئیے ، دل کی باتیں بتانی چاہئیے، ہمارے ایک مرحوم استاد ناصر چٹھہ صاحب اکثر فرمایا کرتے، “پترزیادہ سنڑو تے کھٹ بولو”،  کیونکہ کان دو اور زبان ایک ہوتی ہے۔

میں سوشانت کو انسان سمجھتا ہوں، میں ہر انسان کے لئے دکھی ہوں، چاہے وہ میرے ملک کا ہے یا غیر ملکی،  اب سوشانت کے پاس بظاہر جس چیز کی کمی تھی شائد وہ مادی نہیں تھی، وگرنہ کبھی بھی یوں نہ جاتے۔۔

٭~فہیم الر حمٰن٭~
#Faheemurrehman
#Faheem_ur_Rehman


Post a Comment

0 Comments