کہاں جاؤں,
؎موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
(فراق گورکھپوری)
بدقسمتی سے ،خودکشی سے میرا تعارف بہت پرانا ہے، مجھے نہیں علم کب سے ہے البتہ پہلی دفعہ شدید صدمہ مجھے انڈین اداکارہ جیاعلی کا ہوا، جب سورج پنچولی(اداکار) جو مشہور اداکار ادیتہ پنچولی کے صاحبزادے ہے کو جیا علی کی خودکشی کی وجہ بتایا گیا، ممبئیپولیس کے مطابق جیا علی کی لاش کے پاس سے ایک خط ملا جس میں اس نے سورج پنچولی کے بارے میں بتایا کہ پہلے میرے ساتھریلیشن میں رہا، ہم دونوں اس میں آگے تک نکل گئے، اس دوران میں امید سے ہو گئی تو یہ باقاعدطاقت لگا کر میرے حمل کو ضائعکرگئے اور اب میری کسی پیغام کا جواب تک نہیں دیتے، چنانچہ میں زندگی سے مایوس ہوں اور خودکشی کا ارادہ کر رہی ہوں۔
اس خط کی وجہ سے سورج پنچولی بہت دفعہ پیشیاں بھی بھگت چکے لیکن سسٹم ، برصغیر کا جو انگریز بنا گئے ہے اس میں طاقتور کےلئے سقم بہت ہے اور ہم ابھی تک بدلنے سے قاصر ہے،
میں سنوشانت راجپوت سے بہت حد تک متاثر تھا، میں اس کی طرح اپنے آپ کو فٹ، زندگی سے بھرپور بنانا چاہتا تھا میں نے پہلیدفعہ سوشانت کو “پی کے” فلم میں ایک چھوٹے لیکن متاثر کن روپ میں دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ بلند پائے کا انسان ہے اس کی منزلیہاں نہیں، اس کو اڑنا ہے اور اس کا راستہ سچائے کو ناپے گا۔
میری عادت ہے کہ جب ایک انسان اچھا لگتا ہے تو اس کے بارے میں پڑھتا ہوں لوگوں سے رائے لیتا ہو، اپنی رائے دیتاہوں، سوشانت راجپوت کے بارے میں بھی پڑھتا رہتا ، اپنے زیر نظر تصویر میں دیکھ سکتے ہے کہ کیسی بے عیب اور خوشی سےبھرپور مسکراہٹ ہے ایسے جیسے انسان ایک کٹھن منزل کو پار کر کے اور سخت محنت کرکے اپنے مقام کو پہنچے۔ محنتی افراد ضروراس بات کا اقرار کریں گے کہ بیشک یہی وہ مسکراہٹ ہے جو ان چہروں پہ کھلتی ہے جو محنت کرتے ہوں، کام کے عادی ہو ایسےلوگ خیرات کی منزلوں پہ گزارہ نہیں کرتے۔
آگے کا سفر بخیر ہو میرے دوست ۔۔ ، ۳۴ سالہ سوشانت سنگ راجپوت کا سفرزیست یہی تک تھا۔۔
٭~فہیم الر حمٰن٭~
0 Comments