آپ بیتی - بند گلی

 


میں بات اپنے آپ سے شروع کرنے میں سچا ہوں گا کہ جو مجھ پہ گزرا وہ من و عن بیان تو کیا جا سکتا ہے کسی سے سنا اور کسی کا لکھا پڑھا ایسا بیان نہیں کیا جا سکتا، حالات و واقعات کو جوڑ کر ایسا بتایا نہیں جا سکتا، خیر میں بات کر رہا ہوں سمت کی، یعنی اپنے مقصد کی، اس کو حاصل کرنے کے لئے راستہ تلاش کرنے کی کہ کونسا راستہ کہاں سے مڑے گا کہاں سے سیدھا جانا ہے کہاں سے یوٹرن لیکر واپس آنا ہے، اگر ٹھیک جا رہے ہو تو کونسی نشانیاں ہے وگرنہ دوسرے راستہ اختیار کرنا ہے۔

مجھے خود یہی معاملہ درپیش ہوتا ہے کہ مجھے اندازہ ہی نہیں ہوتا میں کدھر جاؤں ایک موٹا موٹا لکھا ہوا یا یوں سمجھئیے ایک بورڈ میرے ذہن میں ہوتا ہے لیکن اس بورڈ پہ لکھے ہوئے منزل تک پہنچنا مجھے ہلکان کر لیتا ہے، مجھے سجھائی نہیں دیتا بجھائی نہیں دیتا، سچ تو یہ ہے کوئی ساتھ بھی نہیں دیتا، یہاں تک کہ ایک وقت میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ والدین بھی انکاری ہو جاتے ہیں بہن بھائیوں کی تو میں بات ہی نہیں کر رہا۔ 


مثال آپ یوں سمجھ لیجئیے کہ ایک گاڑی ہے سڑک پر جا رہی ہے، گاڑی آگے بڑھ رہی ہے لیکن اس کو منزل کا پتہ نہیں بس راستہ ہے جدھر مڑ رہا ہے گاڑی بھی ادھر ہی مڑ رہی ہے، آپ کیا کہتے ہیں دوستوں کیا ایسی گاڑی کو منزل مل جائی گی؟ کبھی بھی نہیں، ممکن ہی نہیں ہے، ہاں اگر کوئی راستہ دکھا دے، منزل کا پتہ بتا دے، ڈرائیور کو کیا چاہئیے کس مقصد کے لئے وہ سڑک پر نکلا ہے کونسا راستہ صاف ہے، کونسا راستہ غیرہموار لیکن شارٹ کٹ یعنی جلدی منزل تک پہنچانے والا ہے تو اس صورت ممکن ہے کہ ڈرائیور منزل تک پہنچ جائے اور راستہ دکھانے والے مہربان کو دعائیں دیں۔ 



اس بند گلی کے َبند کو یعنی بلاکیج Blockage کو توڑنے کے لئے انسان ہی انسان کے کام آئے گا، انسان ہی آگے بڑھ کر راستہ دکھائے گا دیکھانے والے کے لینز کو صاف کرے گا اب اس مہربان کا روپ کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے جیسے کہ استاد، دوست، والدین، بھائی بہن، رشتہ دار، محبوب اور سب سے بڑھ کر “خدا” ۔ 


فہیم الر حمٰن

Post a Comment

0 Comments