دنیا کا سب سے مشکل کام ہے کہ انسان ایک ہی ٹرانس میں رہے مثال سے میں اپنی بات آگے چلاتا ہے فرض کریں ایک بندہ ڈاکٹر ہے اب باہر ملنے والا ہر بندہ یہی سمجتا ہے کہ یہ اب ڈاکٹر ہی رہے اگر وہ کہیں ہوٹل جاتا ہے کسی کے ساتھ دو منٹ کے لئے گپ شپ کرنا چاہتا ہے تو اسے اجازت نہیں ہے کیونکہ ہر بندہ اس سے فاصلہ رکھتا ہے کیا ایسا ممکن ہے؟ اسی طرح ایک بندہ عالم دین ہے تو لوگ اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ عالم دین بنا رہے سر پہ پگڑی ہو ہاتھ میں تسبیح ہو اور دم درود کرنے 24 گھنٹے تیار ہو کیا ایسا ممکن ہے؟ ایسا ہی کوئی بندہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ وہ بندہ اپنے اسی مخصوص انداز میں رہے جس انداز میں ہم نے اسے دیکھا ہوتا ہے یا جس انداز میں ہم اسے پسند کرتے ہیں
یہ ہماری اور ہمارے معاشرے کی بالخصوص بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم ہر وقت اک شخص کو اسی رول میں دیکھنا چاہتے ہیں اب ایک انسان کے ساتھ بشری تقاضے بھی ہے وہ کہیں کھائے پیئے گا بھی, کہیں سے شاپنگ بھی کرے گا, بیمار بھی ہوگا, غصہ بھی آئے گا, لیکن ہمیں تو وہ اسی رول میں پسند ہے؟ اب ایسا ممکن نہیں ہوتا.
کئی دن سے معروف کرکٹر, سیاستدان, پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم جناب عمران خان کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ سٹیج پر چڑھتے ہوئے کارکنوں سے الجھ جاتے ہیں اور انھیں نیچے دھکے دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں, اب اس سے کئی سوال جنم لیتے ہیں؟ پہلا سوال وہی ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی رہو جیسا ہم آپ کو دیکھتے ہیں, مسکراتے ہوئے, موٹیویشنل اور خندہ پیشاں, جبکہ ایسا ممکن نہیں ہے. دوسرا سوال کہ سٹیج پہ آپ نے یعنی کارکنوں نے بیٹھنا ہے یا لیڈر نے؟ تیسرا کیا عمران خان انسان نہیں؟ بشری تقاضوں سے مبرا ہے وہ؟
اس حوالے سے گزارش کی جاسکتی ہے کہ ہم لوگوں کو سپیس( space) دیں, ان کی زندگی ان کو گزارنے دیں, ان کو من چاہے کام کرنے دیں, یہ ایک صحت مند ڈویلپمنٹ ہو گی جو خود ہماری زندگی پہ بھی مثبت اثر چھوڑے گی اور دوسروں کی زندگی پہ بھی.
یہی کام والدین کے کرنے کے بھی ہے والدین ہمیشہ اپنے بچوں کو دوسروں سے کمپیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں ان سے توقعات کا بوجھ وابستہ کر لیتے ہیں اور یہ بوجھ وقت کے ساتھ بجائے کم ہونے کہ زیادہ ہوتا رہتا ہے, یہی وہ حالات ہوتے ہیں جب بچے سرکش ہو جاتے ہیں اور والدین یہ گلہ کرتے ہیں کہ بڑھاپے میں ہمارا سہارا نہیں بنتا, پماری بات نہیں سنتا, اسے احساس نہیں, وجہ اگر ہم کھلے دل و دماغ سے سوچیں تو یہی بنتی ہے کہ ہمیشہ میری توقع کے مطابق رہو اور یہ ممکن نہیں ہوتا کیونکہ جیسا آپ انسان ہوتے ہیں اسی طرح آپ کا بچہ بھی ہوتا ہے اس کے ہاں بھی وہی تقاضے اور خواہشات ہوتی ہے جو آپ کے ہاں ہے.
فہیم الرحمٰن
14.اپریل.
0 Comments