آپ بیتی

 آپ بیتی 


انسان پر عجیب وقت آجاتا ہے، زمانہ ایک پہلے کی بات ہے اس وقت مجھے موٹرسائیکل کی الف بے بھی معلوم نہیں تھی حالانکہ ہمارے گھر میں میری پیدائش سے بھی پہلے موٹر سائیکل ہوتا تھا، مجھے سے بڑے بھائی نے کرایہ کی موٹر سائیکل اس وقت عام تھی اس پر اپنے دوستوں کے ساتھ چلانا سیکھ لیا تھا اور جب میری باری آئی تو ہمیشہ کی طرح مجھے بنگال بنا دیا گیا کہ اس کو کیا ضرورت ہے کیوں چلانی ہے کیا آفت پڑی ہے وغیرہ وغیرہ، بات مختصر چلانی سیکھ لی جیسے تیسے کر کے۔


بہرحال ہم بات کر رہے تھے موٹر سائیکل کی، میں لاہور ہاسٹل میں تھا میرا ایک دوست تھا لاہور کینٹ کا، وہ موٹر سائیکل پر میرے پاس ہوسٹل آیا اب مہمان کی خاطر مدارت کے لئے چائے یا بوتل لازمی تھی سو اردہ کیا کہ بوتل لے آئے، مارکیٹ میرے ہاسٹل سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی سو دوست سے بائیک لی اور مارکیٹ روانہ ہو گیا، 

اب سین یہ ہے کہ دوست نے بائیک سے اترتے وقت پٹرول بند کر دیا تھا (احتیاطً جس طرح ہم لوگ بھی کرتے ہوتے پیں)

اب میں موٹر سائیکل کو کک مارو وہ سٹارٹ نہ ہو، آخرکار کارپیٹر میں موجود کچھ پٹرول کو رحم آیا اور سٹارٹ تو ہو گیا مارکیٹ میں انٹری موٹرسائیکل نے دھک دھکڑ دھک سے کی کیونکہ پٹرول کم تھا( تو اس وقت موٹر سائیکل کو روزے کی حالت میں دھکے لگتے ہیں )

میان نے پچاس کا پٹرول ڈلوایا سوچا اب ٹھیک ہو گا اور ساتھ ہی دل میں اٹھارا سو صلوتیں سنائیں  کہ سالے اتنا امیر بندہ ہے موٹر سائیکل میں پٹرول نہیں رکھتا، اب پچاس کا ڈالوا تو دیا لیکن پھر نہ سٹارٹ ہو، دل میں خیال آیا اس کمینے بے لگتا ہے موٹر سائیکل کو لبھی پٹرول نہیں دکھایا اس لیے پچاس روپے پہ کوئی اثر نہیں دکھا رہا، موٹر سائیکل دوبارہ فلر بوائے کے پاس لیکر آیا کہ بھائی جان پچاس کا اور ڈالوا دو، وہ بھی میری حالت دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ بھائی موٹر سائیکل چلانے میں اتنا ہی ماہر ہے جتنا اسدعمر ملکی معیشت کو، اس نے پچاس کا اور ڈالوا دیا اور ساتھ میں دھکا بھی آفر کیا کہ شائد سٹارٹ ہو جائے،


بہرکیف بات لمبی ہے اس کو مختصر کرتے ہیں کہ میں بوتل لیکر ہاسٹل تو پہنچ گیا پہنچتے ساتھ ہی اس پہ چڑھائی کر دی کہ بےشرم انسان پٹرول نہیں ڈال سکتے تو بائیک لیکر آتے کیوں ہو دیگر دوست بھی اس کو باتیں سنانے لگے، جب ہماری باتیں حد سے تجاوز کر گئی تو آخر کار اس ظالم نے چپ کا روزہ توڑا اور ہمیں فریق مخالف اور باقی موجود دوستوں کو مبصرین کا درجہ دیکر جائے وقوعہ کا دورہ کرایا اور باقی کہانی حسب معمول وہی ہے کہ قصوروار میں ہی تھا۔ خیر کیا کیا دور تھا گزر گیا، اب کہتا ہوں اچھا تھا گزر گیا ۔۔۔

فہیم الر حمٰن 

Post a Comment

0 Comments