نواز الدین صدیقی صاحب ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میں جب پہلی دفعہ میں جہاز میں سوار ہوا تو مجھے بہت اچھا لگا، کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی جہاز میں سفر نہیں کیا تھا، مجھے شوق تھا جہاز میں بیٹھنے کا،
ہوسٹ : تو اب کیسا لگتا ہے؟
نواز الدین: اب ڈر لگتا ہے، کیونکہ اب میں جینا چاہتا ہوں، جہاز کے کریش ہونے سے، کچھ بھی لائف کے ساتھ گڑبڑ ہو جانے سے،
ہوسٹ: ایسا کیوں؟ پہلے ڈر نہیں لگتا تھا اب ایسا کیا ہوا ہے؟
نواز الدین: پہلے میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، مجھ پہ ذمہ داریاں تھی، اب میں فری ہوں، سارا دن کام نا بھی کروں تو کوئی مسئلہ نہیں، اب میرے پاس ریسورسز ہے، کوئی مجھے ڈائریکٹ نہیں کر سکتا، مجھ پہ کسی چھوٹے بھائی، بڑے بھائی، چھوٹی بہن بڑی بہن، والدہ یا والد یا بیوی بچوں کی کوئی ذمہ داری نہیں، اب اس طرح کی زندگی جینے میں مجھے مزہ آتا ہے,
گاڑی ،بنگلہ، بنک میں رقم (اگرچہ میں اسے اچیومنٹ نہیں مانتا)، سب کچھ ہے میری پاس ۔۔
| دوستوں یہ زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے، ہم میں سے ہر انسان ذمہ داریوں سے بھاگتا یے، کوئی بھی کسی کی کیا اپنی ذمہ داری بھی کسی پہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے،
اگرچہ میں فقیر اس طرح کی زندگی کا سب سے بڑا مخالف ہوں، میری نظر میں کسی کے کام آنا، کسی کو راستہ دکھانا، کسی سے راستہ کا پوچھنا، بات کرنا، ڈائیلاگ کرنا، یہی تو وہ چیزیں ہے جو ہمیں دیگر کائنات میں موجود جانداروں سے ممتاز کرتی ہے، لیکن اس سچ کو جھٹلانا بھی ناممکن ہے کہ ذمہ داری آپ کو اپنی مرضی کی زندگی جینے نہیں دیتی، |
آپ کا کیا خیال ہے؟
~فہیم الرحمٰن
#FaheemUrRehman
0 Comments