آپ شائد حیران ہو جائیں یہ جان کر کہ "خودکشی اور ذہانت کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے" یہ ایسا ہی یے جیسے ایک اچھے کھلاڑی اور کھیل کا، آپ ایک عام انسان کو بیٹنگ کرائے اور پھر ٹنڈولکر کو, ظاہر سی بات ہے رنز ٹنڈولکر زیادہ کرے گا, اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ اس کا مشاق ہونا, کھیل پر عبور ہونا, اس کی نفسیات سمجھنا, پچ اور بال کا آپسی تعلق سمجھنا, ایک عام انسان کو اس بات سے کیا غرض ہو سکتی ہے کہ پچ میں آج کتنی ویری ایشن ہے, بال آؤٹ سوئنگ ہو رہی ہے یا ان سوئنگ, پچ ڈیڈ ہے یا گراسی؟ اسی طرح ہر ذہین انسان کو ایک وقت پہ ایسے خیالات آتے ہیں کہ وہ آگے کی جانب دیکھتا ہے، وہ چیزوں کو پھرولنا (صحیح لفظ ٹٹولنا) چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ وہ دیکھ سکے اس سے آگے کیا ہے؟
ایوریج انسان کا مائنڈ روپیہ پیسہ کی قدر، کیمیکل ریکشن، فزکس کے قوانین، بزنس کے اصول، رسک، ہیجنگ یا ایگریسو انویسٹمنٹ سے نابلد ہوتا ہے، اس کو غرض اس بات سے ہوتی ہے کہ جو کچھ مجھے آتا ہے اس کو اچھے طریقے سے بروئے کار لاکر کچھ انکم جنریٹ کر سکو، شام کو خود، اپنے لئے، اپنے بیوی بچوں کے لئے کچھ خوراک لے سکوں، اس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں کتنی مہلک ہے، اس کے پڑوس میں جو انویشن ہو رہی یے وہ اس کو کتنی مہنگی پڑی گی، حکومت کے بدلنے سے اس کے طرز زندگی میں کتنا فرق آئے گا، اس کو بس بات کرنا آتی یے، وہ بولنا جانتا ہے، صاف الفاظ میں بات کی جائے تو اس کو لفظوں کی جگالی آتی ہے، چند باتیں ہوتی ہے جو وہ روزمرہ زندگی میں، اس کو استعمال کرتا ہے اور اپنا وقت اچھے سے گزارتا یے،
اب اگر ذہین لوگوں کی بات کی جائے تو یہ لوگ قانون کے سب سے بڑے ناقد ہوتے ہیں، ان کو قوانین، اصول و ضوابط سے شدید نفرت ہوتی یے، یہ ان تمام حدوں کو پھلانگنا چاہتے ہیں جو ان کے کرئیٹیویٹی کے راستہ میں رکاوٹ ہو، دنیا میں موجود تقریباً تمام ایجادات انہی راستوں سے چل کر آئی ہے، آپکے ذہن میں کیا ہے؟ کیا ہوائی جہاز کے بنانے والے، ایف ایم ریڈیو کے بنانے والے، ٹیلی فون اور موبائل فون کے بنانے والوں کو سوتے میں کوئی خواب آیا؟ نہیں، بلکہ ان لوگوں نے وہ راستہ چنا جو ایک عام انسان نہیں چنتا، یہ لگاتار محنت کرتے رہے، دن دگنی اور رات چوگنی تپسیا کرتے رہے، عام انسان ان کا مذاق اڑاتے رہے اور پھر ایک وقت آیا کہ ذہین جیت گئے اور عام انسان مات کھا گئے، افواہیں دم توڑ گئی، ایجادات سامنے آگئیں۔
اب بات کی جائے خودکشی اور ذہانت کی، تو آپ حیران ہوں گے کہ بشمول نوبیل انعام یافتہ سائنسدان،مشہور اداکار، گلوکار، کھلاڑی بہت سارے ٹاپ ناچ کے لوگوں نے خودکشیاں کی، اب ہم اس کو ڈپریشن، انگزائٹی یا پھر مینٹل ڈس آڈر کا نام دے سکتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ لوگ جب سٹرک یعنی مقید ہو جاتے ہیں ایک جیسے حالات ان کے اردگرد ہو جاتے ہیں تب یہ لوگ ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لئے خودکشی کا سہارا لیتے ہیں، اکثر لوگ اس کو بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آپ سوچے ایک بزدل انسان اپنے پیسہ کا نقصان نہیں کرنا چاہتا یہ بہادر ہی ہوتا ہے جو اپنی جان پر "کھیل" لیتا ہے،
اب خودکشی جائز ہے یا نا جائز؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر انسان کے پاس شائد اپنا اپنا ہے، کیونکہ میرے حالات آپکے نہیں اور آپ والے حالات میرے نہیں، تو یہاں کیسے مان لیا جائے کہ ایک چیز جو آپ کو وافر میسر ہے وہ کسی اور کے ہاں اتنی ہی تعداد میں ہو، یہاں قانون فطرت کا ہو گا اور فطرت اپنا یہ حق ہر کسی کو دیتی یے کہ چاہو تو رکھ لو چاہو تو ختم کر لو۔
~فہیم ال
رحمٰن
0 Comments