افسانہ نگاری - بغاوت

پانی کا گلاس پکڑے رات ایک بجے سے میں اس کے سرہانے کھڑی رہی، مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک گھنٹہ کھڑا رہنے کے بعد میں بیٹھ گئی کہ چلو سستا لیتی ہو پھر کھڑی ہو جاؤں گی، کہ ایک زناٹے دار تھپڑ سے میری آنکھ کھل گئی اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں تھی کہ میں اس طرح جاگتی، دن میں ایک دو دفعہ بلایا بھی ایسے ہی جاتا ہے مجھے۔


اپنی شادی کا سال مجھے ٹھیک سے یاد نہیں البتہ ان دنوں بینظیر شہید ہوئی تھی جب میری شادی طے ہوئی، عمر سولہ سال تھی، کیونکہ میرے والدین پریشان تھے اگر  بیٹی گھر بیٹھ گئی تو کیا ہوگا؟ کون اس کو کھلائے گا پلائے گا؟ حالانکہ ہمارے گاؤں میں ایسی کئی خواتین ہے جو اپنے والدین کےگھروں میں بیٹھی ہے۔


امٌی کہتی ہیں تم دو بہنیں جڑواں پیدا ہوئی تھی تم  کمزور تھی،صحت ٹھیک نہیں تھی جبکہ تمہاری دوسری بہن کی صحت ٹھیک تھی اس کے باوجود وہ پہلے مہینے ہی اللہ کے ہاں واپس ہو گئی اور جانے تم کیسے بچ گئی حالانکہ تمہاری ہمیں کوئی امید بھی نہیں تھی، میں یہ بات سن کہ اب مسکراتی ہوں پہلے بہت روتی تھی شکوہ کرتی تھی کہ کیوں ایسا ہوا میرے ساتھ؟ میں کیوں نہیں چلی گئی؟ لیکن اب میں مسکراتی ہوں کہ اگر میں چلی جاتی تو یہ بوجھ کس نے اٹھانا تھا؟ آخر سارے ہی قسمت کے دھنی تو نہیں ہوتے کوئی پیدائشی مشقتی بھی تو ہوتا ہے، مسکرانے پہ میری والدہ چلاتی ہے کیوں ہنستی ہو؟ پیلے دانتوں نکال کر شرم بھی نہیں اتی؟ میں دل میں جواب دیتی ہوں مجھے اپنے کالے جسم سے نہیں آتی جو مار کھا کر اب نیلا بھی ہو چکا ہے۔

رشتے میں میاں میرے ماموں زاد ہے غصیلا بہت ہے شادی کی پہلی رات سے ہی بچوں کی تگ و دو میں ہے (یہ میرا گمان ہے) وگرنہ وہ کچھ اور ہی ڈھونڈ رہا ہوتا ہے جیسے ایک مزدور ہو اور وہ سکھوں کے دور کا سونا تلاش کرنے کے لئے روز زمین کھودتا ہو، بھلا ہو میری سہیلی کا، کہ پہلے دن ہی اس نے مجھے گھر سے رخصتی کے وقت میرے منہ میں ایک گولی ٹھونس دی کہ جا آج رات سکون سے کٹ لےگی۔ بس پھر میں اس مزدوری سے تنگ آگئی اور تین مہینے بعد جب پہلی دفعہ اپنے گھر آئی تو پہلا پڑاؤ سہیلی کے ہاں کیا اور ایک ہزار روپیہ جو میں نے میاں کی جیب سے نکالا تھا اسے پکڑایا تھوڑی دیر وہ ہاتھ میں چار پالتے لیکر آگئی،


میں ہر مہینہ ایک گولی کھاتی ہو، سالہا سال ہوگئے میری کوئی اولاد نہیں اور نا ہی جسم میں کوئی ایسا ایسی جگہ ہے جہاں سوراخ نہیں، اب بچوں کو چاہنے والے اپنی زوجہ کے ساتھ ایسا تو نہیں کرتے؟ 



اس کی والدہ مجھ سے بچہ چاہتی یے لیکن اس کے لئے وہ اپنا بچہ میرے حوالے کرنے کو تیار نہیں، گھر آتے ہی اس کا پہلا ٹھکانہ ماں کا کمرہ ہوتا ہے جہاں اس کو پمپ کرکے میرے ہاں بھیجا جاتا ہے کہ جاؤ اور کچھ نیا کرکے آو، لیکن اب میں بھی ڈٹ گئی ہو، دن کو روزہ رکھتی ہو، رات کو نفل پڑھتی ہو جب کھینچتا ہے تو جائے نماز لیکر اپنی جھولی میں رکھ دیتی ہوں۔ مکے، تھپڑ ، لاتیں اور لعنتیں سب وصول کرلی لیکن اب یہ دور میں نہیں چھوڑ رہی، نیم پاگل ہو میں اس کے لئے۔ سچ بتاؤ آپ کو میں ٹھیک ہوں  سب سمجھتی ہو، اب فریب کر رہی ہوں دونوں خداؤں سے، دونوں کی انکاری ہوں، دونوں کی باغی ہوں۔

~فہیم الرحمٰن 

Post a Comment

0 Comments