آپ بیتی - کورونا وباء

 

آپ بیتی ۔ کورونا وباء




سردست روزگار کی پریشانی نے ہر ہنرمند اور غیر ہنر مند کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس کی وجہ کورونا وباء یعنی Corona Pandemic کو قرار دیا گیا ہے، آپ اندازہ کریں کہ آپ کا اپنا روزگار کتنا متاثر ہوا ہے؟ آپ یقیناً کہیں گے “ہاں یار زبردست چوکا لگایا ہے کورونا نے”۔ میں اگر اپنی بات کروں تو میری ملازمت یعنی جاب چھوٹی اسی وجہ سے، پھر جو اپنا روزگار کرتا رہا ہوں اس میں ابھی تک تنزلی چل رہی ہے یعنی Down fall ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں اور آج ادھر کس طرف آ نکلا۔


میں تفصیلاً عرض کرتا ہوں، میں خود اس وباء سے بہت متاثر ہوا اتنا کہ ایک وقت مجھے اپنے بینک اکاؤنٹ کو مکمل خالی کرنا پڑا اور اوپر سے ٹیکس کے نوٹسسز، ارے بھئی جب جاب نہیں رہی، روزگار بند ہو گیا صرف کھانے لگ گیا وہ بھی ڈبل قیمتوں پر ہر چیز ملنے لگی تو مجھے بتائیے مجھے کہاں سے رقم ملتی؟ کہاں سے پیسہ آتا؟ حکومت کی نظر میں، میں گریجویٹ ہوں، ملازمت پیشہ ہوں لیکن اصل میں تو کہانی کچھ اور ہے اب اس کہانی سے حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ بمطابق ان کے، ہم تو میکرو لیول Macro level دیکھتے ہیں مائیکرو لیول Micro level نہیں، اب کوئی سیانا ان سے پوچھے، بھئی جب ووٹ مائیکرو پڑتا ہے اور آپ مائیکر ووٹ سے اپنی برتری جماتے ہو تب بھی میکرو دیکھا کرو کہ آپ کی پارٹی نے میکرو پرفارمنس کیسی دی ہے؟ اور خوداری کا تقاضہ توپھر یہ ہے کہ وہ سیٹ قبول ہی نہ کرو ۔۔



بہرحال کہانی وہی ہے کردار بھی وہی ہے حالات نے پلٹا کھایا ہے رویے بدل گئے ہے، آپ اگر دیکھیں کہ آپ کے اردگرد لوگ پریشان ہے، روزگار کا بندوبست نہیں ہو رہا، کھانے پینے کا سامان ختم ہو رہا ہےتو آپ سے گزارش ہے ایک دوسرے کی مدد کریں، ایک دوسرے کے لئے فرشتہ بن کے آئے، وسیلہ بنے، کھانا کھلائے، روزگار کا بندوبست کریں، پیار بانٹے، دکھ درد میں کام آئے، سکھ میں تو سب ساتھ ہوتے ہیں دکھ میں آگے بڑھے اور کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہے، “جانی میں حاضر” ۔۔
اسی سے یاد آیا کچھ عرصہ قبل ایک دوست اپنا واقعہ سنا رہے تھے کہ میں ایک دکان چلا رہا تھا دکان کیا تھی ایک small یعنی چھوٹا جنرل سٹور، میں اس دکان کو دن رات دیا کرتا تھا اتنا کہ اپنا آرام بھول جاتا اور گاہک کی خدمت میں مصروف ہو جاتا بسا اوقات تو ایسا بھی ہو جاتا کہ میں کھانا کھا رہا ہوں کوئی گاہک آگیا تو فوراً کھانا چھوڑ کر اس طرف کو لپک جاتا لیکن اب میری مصروفیت کم ہے، آمدن اسی دکان سے زیادہ ہو گئی ہے اور بہت خوشحال بھی ہوں، ہم سب حیران ہوئے کہ بھائی ایسا کیسے؟ کہتا ہے بھائی میں نے اپنے ساتھ اپنے دہان پہ ایک چھوٹو رکھ لیا اب اس چھوٹو نے میری قسمت بدل دی، میں کھانا کھاتا ہوں چھوٹو ڈیوٹی دیتا ہے میں نماز پڑھنے جاتا ہوں چھوٹو ڈیوٹی دیتا ہےاسی طرح جب یہی سارے کام چھوٹو کرتا ہے تو میں ڈیوٹی دیتا ہوں۔
اب جب مجھے اندازہ ہو گیا کہ چھوٹو استاد یعنی Trained ہو گیا تو میں نے ٹافی اور ببل گم کی ایک ایجنسی خرید لی کیونکہ اب ہمارے پاس وقت کافی ہوتا تھا اور ہم اس وقت کو کہیں اور صرف یعنی invest کر سکتے تھے، میں نے جب اپنی جگہ سے قدم ہٹائے تو میں آگے بھی چلاگیا اور ﷲ نے غیبی امداد بھی کی ایک اور بندے کا رزق بھی میرے حوالے کیا، کار کاروبار بھی بڑھ گیا، وسیلہ روزگار بھی ہو گیا، اکثر لوگ اس بات سے ڈرتے ہے کہ یار اگر فلاں بندہ کو کچھ کاروبار شروع کروا دیا یا اس کو آگے جانے کا راستہ بتا دیا تو میرا کیا ہو گا؟ میں تو ٹھپ ہو جاؤں گا میری کیا حیثیت رہ جائے گی۔ ایسا سوچنا فضول اور لاحاصل ہے، جو آپ کا مقدر ہے وہ کوہی بھی آپ سے نہیں چھین سکتا اور جو چیز آپ کی نہیں ہے وہ کوئی آپ کو دے نہیں سکتا، اسی بات سے مجھے دیجئے اجازت، رہی زندگی تو ہوتی رہے گی ملاقات ۔

فہیم الرحمٰن 

Post a Comment

0 Comments