یہ سمندرہےیہلامحدود ہے اچھے سے مزید اچھے کی طرف پرواز ہے اس کا نام و نشان نہیں اس کا کوئی کنارہ نہیں کوئی سرا کوئی سراغ نہیں بقول بزرگوں کہ ” سردیوں کی آگ ہے ہر کوئی اپنی طرف کھچنچنا چاہتا ہے” خواہشات کا اتمام نہیں یوں جانئے دنیامیں آج تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہے اور آگے آنی والی زندگی میں جتنی بھی ہوں گی اس سب کے پیچھے کارفرما عمل “ خواہش” جسے آپ “سہولت“ کا نام دے کہ بدل بھی سکتے ہیں یہ منحصر اپنی عمل اور اپنے اثاثوں پہ ہے آپ کے جیب میں اگر سو روپے ہے تو خواہش سو روپے والی ہوں گی ( اگراس بڑی ہے تو اْس کو آپ بڑھک یا ادبی معنوں میں شیخ چلی کا خواب کہیں گے ) اگر ہزار ہے تو ہزاروں کے آس پاس والی چیزیں آپ کو اپنی طرف راغب کریں گے اورلاکھوں کروڑوں ،اربوں ہے تو اسی مناسبت سے آپ فیصلہ بھی کریں گے اور اپنی خواہشات بھی طے کریں گے کچھ کہ ہاں یہ بے سکونی کا سفر ہے یعنی جتنی سہولتیں زیادہ ہوں گی غم بھی اسی ترتیب سے ہوں گے بعض افراد کے ہاں یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں دولت مند بھی جیبیں ڈھیلی کرلیتا ہے یعنی ایک قدرتی عمل ہے جب قدرت ان کے ذخیرے کو ابمٹانا یا لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے خیراسی حال سے مطابقت میں ایک واقعہ پڑھے۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے سکول کے پاس "چچا جی" آکرکھڑے ہوتے تھے ان کے سموسے اور چائے بہت مشہور تھی سکول سے واپسی پر بچوں کی پسندیدہ غذا بھی یہی تھی اور لذیز بھی ایسے کہ آج بھی ان کا ذائقہ میں محسوس کرسکتا ہوں (اب اگر میں بات کروں تو تقریباً ساتممالک کا وزٹ، طرح طرح کے کھانے شائد ہی لاہور،فیصلآباد، کراچی، کوئٹہ اور روالپنڈی میں کوئی مشہور کھانے کیجگہ رہگئی ہو) ہم تو خیر کسی کھاتے میں نہیں تھے جو ذرا مالی طور پر مضبوط تھے ان کی موج ہوتی تھی اور ہمارے جیسے عید کے پیسے جوڑ کہ چچاجی کے کھانے کے لئے رکھ لیتے(وہ بھی اگر اماں جی سے بچ جاتے وگرنہ عید کے تینوں دن اماںجی موقع پہ صفائی کر لیتی جیسے ہی کوئی عیدی دیتا) اورپھرپورا سال اسی تبصروں میںگزارتے کہ چچاجی بہت شوم انسان ہے چچاجی امیر بچوں کو زیادہ دیتے ہے یاچچاجی ہمارے ابو کے دوست ہے وغیرہ وغیرہ۔--
زیادہ ترہماری محفل میں چچاجی ہی برپا ہوتے تھے وجہ کیا یہ کم ہے کہ بچپن ان تمام مشکلات اورمصائب سےآزاد ہوتا ہے جوآج ہے جیسےغم روزگار،اپناگھر، مستقل آمدن، سرکارینوکری، گھریلوخوشیاں، بیگم کے سپنے،وغیرہ وغیرہ اور بسا اوقات تو چچاجی کے بارے میں قصے کہانیاں گھڑتےتھے جیسے کہ چچاجی کی بیوی مرگئی ہے ان کے بچے باہر کے ملک ہوتے ہیں لیکن یہ اپنا کام کرتے ہے ایک جو سب سے مشہورافواہ کہ چچاجی کی بیوی شادی کے ایک سال بعد چڑیل بن گئی تھی کیونکہ وہ نماز نہیں پڑھتی تھی کچھ نونہال اس خیال کو بےدردی سے رد بھی کرتے تھے کہ نہیں یارایسا نہیں ورنہ اللہ اس کو آگ میں جلالیتا ( اسزمانے میں ہم مدرسہ میں قاری صاحب سےاللہ کا ڈربہت سنتےتھے لہذا بات بات پہ“ اللہ ناراض ہو جائے گا“ کا ورد زباں پہ ضروررہتا )
وہ للچائی نظروں جن سے میں چچاجی کے پلیٹ جو لبالب بیک وقت چھولے اور سموسوں کودیکھا کرتا تھا آج آسائشوں کاتعاقب کرتی ہےاس زمانے میں جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی تو پلیٹ کھانا سب بڑی عیاشی لگتی تھی اورمجھےیاد ہے کہمیں اکثر اپنے بچپنمیں اپنے آپ سے یہ وعدے کرتا تھا کہ جب میں پیسے کمانے لگ جاؤں تو دو کام جی بھرکےکروںگا ایک پتنگ اڑانا اور دوسرا چچاجی سے چھولے سموسے کھانا۔---آج میں اتنی استطاعت رکھتا ہوں کہ اس جیسی شائد تین چارریڑھیاں بھی خرید سکتاہوں لیکن اب ترجیحات بدل چکی ہے آج چھولے کھانا آسائش نہیں لگتی اب ماڈل ٹاؤن میں گھر بنانا، نئی کارخیریدنا، اپناکاروباربنانا، گھروالوں کیضرورتیں پوری کرنا، ہفتے کے تین دن میکڈونلڈ، کےایفسی اور اس طرح کے بڑے برانڈزکا یاتراکرنامشہور ڈیزئینرز سے اپنے کپڑے بنوانا، بیوی کومن پسند شاپنگ کروانا، کنوارے ہے اگر تو شادی کرنا، چھ فگرسیلری لینا وغیرہ وغیرہ۔۔----
اگرتجزیہ کیا جائے تو زندگی کے اس برسوں میں للچائی نظروں کامطمع بدلتا رہا ہے بچپن میں چھولے، ذرا بڑے ہوئے تو اچھی سائیکل، اچھے کپڑے، اچھاسکول،جوانی کے اوال میں پہنچے توموٹرسائیکل، موبائیل، جیبخرچ، مہنگےشوق، پھرشادی، بیوی، بچےاپنا گھر، پکینوکری، نوکرچاکرشائد اس کے بعد اب ڈھیر ساری پراپرٹی ہواورایک وقت اب ایسا بھیآئےکہامررہنے کی خواہش ہوجائے مرنے سے جی متلائے اور یہی مطمع نظرٹھہرجائےکہ حضرت خضر کیعمرپاؤں---
غرضیکہ یہ سفر نامکمل ہے جتنا کچھ بھی مل جائے پھر بھی کچھ ناہونے کا احساس جکڑے رکھے گا اور یہی باور ہو گا کہ یار ادھوری رہگئی “خواہشیں”۔۔شائد یہ کبھی کسی کی بھی پوری نا ہوئی ہو---
0 Comments