دھوکے باز

میں کبھی کسی حکمران کو موردالزام اپنی پستی، بدحالی اور غربت کا نہیں ٹھہراتا، مجھے اندازہ ہے کہ میں کونسا پاک ہوں، نماز ،روزہ، حج اور ذکر اذکار اگر سیاستدان اور دوسرے حکمران کرتے ہیں تو میں کونسا نہیں کرتا، میں بھی تو یہ سب کرتا ہوں، وقت وقت کی بات ہوتی ہے، میرا اندار سے بھی مولوی، سیاستدان، جرنیل، جج، مفتی، وکیل اور پولیس برآمد ہو جاتا ہے، موقع کی مناسبت سے میں بھی روپ بدلتا ہے، رشتے نہیں نبھاتا، دوستوں کو دھوکا دیتا ہوں، اپنا کمفرٹ زون برقرار رکھتا ہوں، ہر حال میں اپنا فائدہ سوچتا ہوں، میں بھی تو ایسا ہی ہوں، خیر یہ واقعہ پڑھئیے اور اپنا گریباں دیکھیئے، آپ کے کتنے نمبر بنتے ہیں۔ 

 گزشتہ دن، ایک دوست کے ہاں دعوت تھی کافی سارے دوست ہم اکھٹے تھے، جہاں بہت ساری باتیں ہوئی وہاں لوگ اور لوگوں کی باتیں بھی محفل کی زینت بنی، ایک دوست نے اپنا واقعہ بتایا کہ: میرے ایک ماموں ہے جو باہر (کسی یورپ ملک کا نام بتایا) مقیم ہے، ماشاءاللہ اچھے پیسے بناتا ہے، جب وہاں پیسہ زیادہ کماتا ہے تو ظاہر ہے یہاں بھی ٹھاٹ بھاٹ اچھے بھلے ہوں گے، کہتا ہے ایک دفعہ گاؤں چھٹیاں گزارنے آیا تو بڑی گاڑی رینٹ پہ لی، ایک دو بندہ بھی ساتھ میں رکھ لیے جو اس کے کرسی سیدھی کرتے، چارپائی پہ جگہ خالی کرواتے اور لوگوں کے سامنے خان جی، خان جی کہہ کر بلاتے، اب ظاہر اتنا سارا تردد لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے، ہمارے گاؤں میں ایک غریب تھا جس کی چھوٹی سی دکان تھی دکان تو کپڑوں کی تھی لیکن کپڑے برائے نام سے بھی کم تھے، یہی کچھ دو چار چادریں اور دو چار سوٹ، اس کی دکان کا کل اثاثہ تھا، اب جب دکاندار گاؤں کا تھا تو ظاہر ہے کچھ جان پہچان بھی تھی، جب غریب دکاندار نے یہ سب دیکھا پہلے تو آنکھیں خیرہ ہوئی پھر حال وہی ہوا جو ان حالات میں ایک لاچار، غربت سے مجبور ایک بندہ کرتا ہے، اور ماموں سے کچھ رقم کا تقاضہ کیا کہ میری کچھ مدد کر دیں، میری دکان چل جائے گی،

 ماموں نے اسے بڑا حوصلہ دیا اور کہا او پاگل روتا کیوں ہے، پریشان نا ہو میں ہفتہ ایک دو میں، پیسوں کا بندوبست کرتا ہوں، تجھے دو لاکھ چاہئیے میں پانچ دیتا ہوں، تو نے سال کا کہا ہے میں دو سال کے لئے دیتا ہوں، اپنی دکان سنبھال، اللہ کرے گا سب ٹھیک ہو جائے گا، 

 اب دکاندار بڑا خوش، روز آتے جاتے ڈیرہ میں یا باہر کسی جگہ اگر ماموں سے ملاقات ہو جاتی، تو سائیکل سے اتر کر سلام کرتا اب ہر وقت "خان جی بلکل ٹھیک کہا"، "بلکل خان جی"، "بیشک خان جی"، اب اس کے منہ میں یہی الفاظ ہوتے، دو تین ہفتے گزرے اس بات کو، ایک دن میں گھر کے پاس کھڑا تھا تو کہیں سے وہ دکاندار سائیکل پر آرہا تھا، مجھے دیکھتے ہی بریک لگائی اور منہ پر زبردستی کی مسکراہٹ لاتے ہوئے پہلے تو حال احوال پوچھا پھر ماموں کا پوچھا کہ آج کل نظر نہیں آرہے، کہاں چلے گئے ہیں؟ میں نے کہ چچا! ان کو تو ایک ہفتہ ہو گیا واپس چلے گئے ہیں، یہ سن کر بہت پریشان ہوئے، منہ سے آواز باقاعدہ رک رک کر آنے لگی، ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، کیونکہ میں سارا ماجرا جانتا تھا، میں گھر گیا اور پہلی فرصت میں ماموں کو فون ملایا، دعا سلام کے بعد ماموں سے کہا، ماموں یہ بہت برا کیا ہے آپ نے، آپ کو اس سے جھوٹا وعدہ نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ ڈھونگ کم از کم نہیں رچانا چاہیے تھا کہ میں تمہاری غربت تم سے دور کر لو گا، ہر انسان کی خواہش ہے کہ وہ اچھا جیے، اچھا کھائے اچھا پیئے، کون کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے خوش ہوتا ہے، تو ماموں مجھے کہتے ہیں، ارے بیوقوف، "تم ایسا کیوں نہیں سوچتے، کہ وہ دو ہفتے کتنا خوش رہا ہوگا، نیند اچھی کی ہو گی، نمازیں اچھی پڑھیں ہوں گی، لوگوں سے کتنا اچھا میل جول رکھا ہو گا، اپنے سارے کام خوشی خوشی کیے ہوں گے, اچھی خوراک کھائی ہو گی, ان سب کا اجر بھی تو سوچو، مجھے گناہ اور ثواب کا تو بڑا بتا رہا ہے، اپنی سوچ مثبت رکھو، منفی مت سوچو"

 میں حیران ہو گیا کوئی ظالم ایسے کیسے سوچ سکتا ہے، یہ بھلا کہاں کا اجر ہے؟، کہاں کا ثواب کمایا ہے؟ دوست نے آگے بتاتے ہوئے کہا، کہ ٹھیک ایک ہفتہ بعد دکاندار کو فالج ہوا، پہلے چلنا پھرنا بند ہوا، پھر کھانا پینا، اور پھر اس دنیا میں جینا۔ جبکہ میرا ماموں کا شوق ویسے کا ویسے ہے، ایسے ہی کچھ عرصہ بعد پاکستان آتا ہے، گاڑیوں میں گھومتا ہے، نوکر چاکر رکھتا ہے، غریبوں سے مزید جھوٹے وعدہ کرتا ہے، اور پھر چلتا بنتا ہے ۔۔ نا آنے کا پتہ ہوتا ہے، نا جانے کا، لیکن جھوٹے وعدہ کرنے میں وہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔

 ~فہیم الرحمٰن

Post a Comment

0 Comments