One last drop of water - آخری پانی

 گزشتہ دن ہماری دو دہائیوں


پہ محیط محبت ،حکومت وقت کے ہاتھوں یا یوں کہیے فقط ایک بول سے دم توڑ گئی، اب اس سانحہ پہ کسی نے بھی میرے ساتھ ہمدردی نہیں کی، کوئی تعزیت کرنے نہیں آیا، میرا خیال تھا کوئی تین دن میرے پاس بیٹھے گا، تیرا غم میرا غم کہہ کر میرا بوجھ ہلکا کرے گا، لیکن کہاں! اب کسی کے پاس دینے کو کچھ نہیں، شائد پیار کے دو بول بھی،


مجھے ایسا یاد تو نہیں کہ ہم کہاں، کیسے اور کیوں ملے تھے لیکن مجھے اتنا یاد ہے کہ دن

کے بعد جو وقت آتا ہے جسے رات کہتے ہے وہ میری نہیں کٹی تھی، میں ساری رات اسے دیکھتا رہا، باتیں کرتا رہا، کبھی وہ شرماتی کبھی میں جھینپ جاتا، اسی آنکھ مچولی میں مؤذن نے صدا بلند کی، تو ہماری ملاقات کا پردہ چاک ہوا کہ میں اپنے بان کی چارپائی پہ اکیلے بیٹھا تھا اور میرے منہ کا ذائقہ ایسا تھا جیسے میں نے انتہائی میٹھے انگور  کھائے ہوں،


اس سارے عرصہ میں اگر ہم دونوں نے کئی غم دیکھے ہیں تو خوشیوں کے کئی پل ساتھ بھی گزارے ہیں، مجھے یاد ہے جب پہلی دفعہ یہ مہاجر بن کے ہمارے گاؤں آئے تھے اس وقت میری عمر اتنی تھی کہ ہم دونوں صرف ایک دوسرے کے لئے کشش محسوس کر سکتے تھے، ہم کھیلے اکٹھے لیکن ہم میں سے جیتا کبھی کوئی بھی نہیں تھا، ہمیشہ ہماری مشترکہ کوشش ہوتی تھی کہ میں ہار جاؤ یہ جیت جائے، اسی ادھم میں ہم کھیلنا چھوڑ دیتے تھے

کہ شام کی اذان ہوجاتی تھی، اور دوسرے دن پھر نئے سرے سے یہی کھیل کھیلتے،


جانے کب بڑے ہوئے، کب یہ سلسلہ جاگا، کچھ اندازہ نہیں ہوا، مصیبت یہ آن پڑی کہ میں بڑا ہوا تو باہر آزادی سے گھومنے لگا، لیکن جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی آزادی ختم ہو گئی،

افغان معاشرہ میں عورت کو پردوں میں ڈھک لیا جاتا یے، اس کو سانس لینے کے لئے اس چادر میں سوراخ سے منہ لگانا پڑتا ہے، جب ہم دونوں کی کیفیت ایک جیسی ہو گئی تو ایک دن میں نے پیغام بھیجا کہ چلو میں لینے آتا ہوں، مجھے پتہ تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ میں ایسا کر سکوں گا، نا میں اتنا بہادر ہوں، اور یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کبھی باہر نہیں آئی گی، لیکن محبت اندھی تھی، دل میں طوفان تھا، جذبات کا ایک سمندر تھا جو شائد بحر الکاہل سے بھی بڑا تھا، کہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھا، اسکا جواب وہی تھا کہ میں چلی تو آؤں گی لیکن کہیں ٹھہر نہیں پاؤں گی، اس جواب سے میں ڈر گیا کہ میری نہیں ہوئی تو میں کیا کر سکوں گا؟

وہ بلا کی مذہبی تھی، مجھے بھی ذکر نماز اور روزہ پہ لگا دیا تھا، ایک تسبیح اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں بھیجی کہ جاؤں اور اس کو کہوں، کہ ذکر کیا کرو، دعا کیا کرو، میں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی، روزے پورے رکھے، ذکر بہت کیا، دعائیں بہت کی، لیکن ہم مل نہیں سکے، میں ہمیشہ اس سے یہی سوال کرتا تھا کہ کیسے ممکن ہے ہم مل سکیں گے؟ اس کا جواب ہوتا تم دعا کرو، جبکہ مجھے اندازہ تھا کہ افغان ہمیں پسند نہیں کرتے، اس کےبھائی مجھ سے نفرت کرتے ہیں، وہ مجھے پنجابی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور میں ہمیشہ سے یہی سوال کرتا " کیا مجھ سے پوچھ کے مجھے یہاں پیدا کیا گیا ہے" وہ استغفار کا ورد کرکے مجھ سے دور چلے جاتے، 


آخر میری مخلص کوششوں سے اور اس کے بھائیوں کے بےپناہ روکاوٹوں کے بعد بھی جب

ہماری محبت کم نہیں ہوئی، تو انھوں نے مجھے اسی حالت میں قبول کر لیا، اگرچہ اپنی بہن کا ہاتھ مجھے نہیں دیا، لیکن اس کی وفاداری کو دیکھتے ہوئے جب ایک افغانی اس کے دس لاکھ روپے بھی دینے کو تیار ہوا انھوں نے تب بھی نہیں انکار کیا، اور یہی کہتے رہے ابھی ہم اپنی بہن کی شادی نہیں کر رہے، وہ بھی وفادار تھی لیکن جانثاری میں، میں نے بھی کوئی پس و پیش نہیں کیا، آج جب ہماری عمر کے لوگوں کے تین تین بچے ہیں لیکن ہم غیر شادی شدہ، شادی شدہ ہے،


حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد جب میں نے رائے لی، کہ اب اگلا کیا حکم ہے، تو اس نے کہا کہ ہمارے ابا کا فیصلہ ہے، کہ ہم یہ وطن چھوڑ رہے ہیں، میں نے بہت منتیں، التجائیں کی، کہ چلو ہم مل نہیں سکے، لیکن ایک دوسرے کو دیکھ تو لیتے ہیں، اندھیرے اجالے میں ہاتھ تو پکڑ کے کچھ دیر سستا تو لیتے ہیں پھر ملاقات کا کیا بنے گا؟ یا مجھے افغانی بنا لو، مجھے بھی ساتھ لے چلو، اپنا خادم بنا لو، خدمت کروں گا، اس کے بھائیوں سے بھی کہا، ایسی بھی کیا آفت ہے، مت جاؤ، کوئی پوچھنے آیا بھی تو میں اپنی زمین ضمانت میں رکھوا دوں گا، لیکن وہ بھی نہیں مانے اور سامان باندھنے کے لئے مجھ سے رسی مانگی، 


آج کا دن کسی سانحے سے کم نہیں ہے، وہ سارے ایک بڑے ٹرک میں اپنا سامان لوڈ کر رہے تھے، میں نے مدد واسطے اپنی خدمات پیش کرنی چاہی تو "زیبا گل" نے اشارہ کیا، کہ مجھے پانی لا دو، میں نے ایک بوتل دکان سے بھاگ کر اس کے حوالے کی، بجائے پینے کے وہ اس سے وضو کرنے لگی، کہ جاتے ہوئے نفل پڑھوں گی، اور دعائیں کروں گی، میں حیران ہو کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا، کہ کیسا یقین رکھتی ہےتم، مجھے حیران ہوتے دیکھ کر کہا، گھبراؤ نہیں "ہم ملیں گے" اور اس کے ساتھ ہی تھوڑا سا پانی جو وضو سے بچ گیا تھا وہ پی لیا۔


~فہیم الرحمٰن 

Post a Comment

0 Comments