تبصرہ کتاب “ملاں پور کا سائیں”
دنیائے فیس بک پر میری کوشش ہوتی ہے کہ اردو اور انگلش کے سبھی لکھاریوں کو فالو کروں، ان کے خیالات جان جاؤں، انکی تصانیف سے استفادہ کروں، ان کے افکار سے نیا سیکھوں، اپنے خیالات میں جدت پیدا کروں، پرانا اسلوب ہو یا نیا، سبپڑھوں۔ اسی فیس بکی دنیا سے بہت سے اچھے لوگوں سے تعارف ہوا ان میں “ ظفر جی “ نمایاں ہے،
ظفر جی سے پہلے پہل تعارف اس زمانے ہوا جب “ ن لیگ “ کے حق میں کبھی کبھار پوسٹ کر دیتے یا جو ہمارے مشترکہ دوستہوتے عمران خان صاحب کی کسی بیان پر (جو عموماً ن لیگ کے خلاف کرتے) تو اس میں ظفر بھائی کو مینشن کر دیتے کہ اب بتاؤ۔بہرحال ماننا پڑے گا ظفر بھائی کا، کیا احسن طریقے سے اختلاف کرتے ہیں
کچھ عرصہ پہلے ان کی ایک کتاب “ ملاں پور کا سائیں “ مارکیٹ میں آئی اور چھا گئی، تصانیف کے حوالے سے کبھی ظفر بھائی کونہیں جانا، اگرچہ میں کوشش کرتا ہوں کہ مطالعہ کی مارکیٹ میں شامل رہوں اور اس بارے میں اچھی معلومات رکھوں، فہیم عالمصاحب جو کہ ماشاءاللہ اچھے خاصے تگڑے پبلشر ہے ان کے پروفائل سے معلوم ہوا کہ ظفر بھائی نے کتاب لکھی ہے، میں نے کچھخاص قصد نہیں کیا کہ نام نے مجھے زیادہ اپیل نہیں کیا کہ میں پڑھوں (جو کہ میری کم علمی ہے)۔
بعد میں جب تبصرے پڑھے اور ایک آدھ قسط ان کے پروفائل سے پڑھی تو سچ میں سرور آگیا کہ کیا مدلل طریقے سے ناول کےکرداروں کو منظم کیا، کرداروں کو سوچ کی سکرین پر چلایا، ان کے خیالات، چہرے کے اتار چڑھاؤ، ان کا رکھ رکھاؤ، آس پاس کاماحول، بہت اعلی طریقے سے سامنے لیکر آئے۔
سائیں صلاح الدین عرف صلّو، جو کہ مرکزی کردار ہے ناول کے، مسلکوں کے بیچ کیسے رلتے ہیں، کن تکالیف سے گزرتے ہیں، کیسےان پڑھ، رٹو طوطے، اور دین سے بیزار علما (علما سو ء) کے ہاتھوں در در رل جاتے ہیں، علما کا ایک کام اسلام کی ایسی تشریح بھیہے کہ جس سے اس کے ماننے والے بددل نہ ہو، اسے اپنے راستے دیوار نہ سمجھے، مسائل کی جڑ نہ سمجھے، اللہ سے تعلق کو خیالی پلاؤ نہسمجھے بلکہ،
ایسا بنانا یا بتانا کہ اس کے ماننے والے عقیدت سے سنے، عمل کریں، اپنی طرز زندگی کو اسلام کے مطابق استوار کریں، مسائل کاحل پیچیدہ نہ ہو بلکہ اتنا آسان ہو کہ ہر شخص باآسانی سمجھ جائے اس کو مختلف در نہ کھٹکھٹانے پڑے بلکہ ایک ہی جگہ سے اس کومکمل رہنمائ مل جائے۔
ظفر جی نے جس خوبصورتی سے اس کو زیب قرطاس کیا ہے، یقین مانئیے حرف حرف موتی لگتا ہے ایک عام آدمی کیسے سماج، رسمو رواج اور علما سوء کے درمیان پستا ہے، وہ ایک مانند فٹ بال کے اللہ سے بھی لوُ لگانا چاہتا ہے اور خود بھی خوشگوار زندگی بسرکرنا چاہتا ہے، لیکن مولوی حضرات زندگی کی خوشییوں اور اللہ پاک کو اس کے سامنے مدمقابل کھڑا کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ صلؔووہ راستہ پا لیتا ہے جس پہ آ کے انسان کی اللہ پاک سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک دوسرے کو ِچھٹیاں لکھنا تک شروع کر دیتےہیں۔
اقبال ؒ کے فلسفے کے مطابق “خودی” کا شاہکار جس طرح صلّو کے کردار میں سمایا گیا واللہ میرے جیسے عام انسان کو اس کےمعانی و مطالب سمجھ آ گئے، انسان ساری زندگی سفارشییں ڈھونڈتا ہے، بیساکھیاں تلاش کرتا ہے، چاہتا ہے کوئی اس کا نمائندہ بنجائے اور اوپر تک پیغام پہنچا دیں، ظفر جی نے صلّو کے کردار میں جو راستہ بتا دیا ہے یقیناً یہ معراج خود حاصل کیا جا سکتا ہےبشرطیکہ نیت اور طبیعت خالص ہو۔
ظفر جی کی حالات حاضرہ پر جو گرفت ہے اور جس انداز سے ملکی معاملات پر بےچین نظر آتے ہیں، وہ ناول میں جا بجا نظر آتی ہےظفر جی کے اندر ایک جمہوری اور سیاسی آدمی ہے جو پوری طاقت کے ساتھ ان کے خیالات اور قلم کو جابجا موڑتا نظر آتا ہے،ناول سے ہی کچھ اقتباس آپ کے پیش خدمت کرتا ہوں، مارشل لاء کے بارے میں لکھتے ہیں “جن، بھوت، آسیب اور مارشللا..... ایک بار چڑھ جائیں تو اترتے آرام سے ہی ہیں....!”😁
ایک اور جگہ پاکستان میں سیاست کے بارے میں لکھتے ہیں “ جھنڈا تو فی الحال اسی کا ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے” 😁
ظفر جی کا دل کتنا حساس ہے اندازہ لگائیے ایک پیراگراف میں کس قدر خوبصورتی سے ان تمام کرداروں کو یکجا کیا گیا ہے جن کا کامعوام کی خدمت اور فلاح و بہبود ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ان سے اپنا یہ کام سنبھالا نہیں جاتا اور وہ اپنا کام چھوڑ کر باقی کےکاموں پر توجہ دیتے ہیں نتیجتاً کوئی کام سرے نہیں لگتا، ظفر جی کا ناول سے ایک اقتباس پڑھئیے ذرا..... “ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہبابا ڈاکیا مجھ پہ سیخ پا ہے..... کہتا ہے نوکر کا کام پیٹ بھر کرسونا نہیں... غریب لاچار عوام کی خدمت ہے.. چار ضلعوں میں کوئیہسپتال نہیں... پولیس اپنی حفاظت نئیں کر سکتی... فوج کابل فتح کرنے نکلی ہوئی ہے... پیر لوٹ کھسوٹ میں لگے ہیں... اگر تو بھیبے فکری کی چادر اوڑھ کے کیٹ گیا تو تجھ میں اور اس ریوڑ میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اٹھ اور مخلوق کا درد بٹا...”
آجکل جس انداز میں پیری فقیری نے رواج پکڑا ہے، لگتا ہے مرشدین کا مارکیٹ میں وہی حال ہونا ہے جو سستے شہد کا ہو چکا ہے،پاک، مدینہ، مکہ، عبداللہ، وغیرہ سب کے نام سے شہد چل رہا ہے لیکن اعتبار کوئی بھی کرنے کو تیار نہیں، پیر صاحبان مریدوں کامال کھا کر دو روٹی پیٹ پر بھی باندھتے نظر آتے ہیں، پوش علاقوں میں بنگلوں، بڑی گاڑیاں، بڑے بڑے فارم ہاوسز، بنک بیلنسز،یورپ امریکہ کی یاترا، دو دو نیشنلٹیاں، کیا کمی ہے ان کے پاس؟؟
اسی بارے میں ظفر جی اصلی پیروں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ“ خبردار...! آئندہ کچے پیاز سے روٹی کھانا اور صرف شب کو نیندفرمانا۔ ورنہ سائیں نوکری سے بے دخل کر دے گا۔” ایک اور جگہ ان پیروں کے بارے میں بتاتے ہیں جو اپنے آپ کو کہلاتے توسیّد ہے لیکن دراصل عوام کی خیرات کھاتے ہیں “ سیّد کی تعریف جانتے ہو؟ ہاں جانتا ہوں، آل رسول ﷺ اور اولاد علی ؓ کوسیّد کہتے ہیں، ........ اب یہ بتاؤ کہ سیدنا علیؓ، سیدنا حسن ؓ اور سیدنا امام حسین ؓ آل رسول ناں تھے؟ ......... اب یہ بتاؤ کہ سیدالکونین ﷺ لوگوں میں خیرات بانٹا کرتے تھے یا ان سے خیرات وصول کیا کرتے تھے؟”
بحثیت ایک عام قاری کے، میں ضرور آپ کو ریکمنڈ کروں گا کہ “ملاں پور کا سائیں” ضرور پڑھے، اس لئے نہیں کہ مجھے ڈسکاؤنٹڈپرائس پر ملی ہے 😁 ، بلکہ اس لئے کہ یہ آپ کے خیالات کے تالاب میں ارتعاش ضرور پیدا کرے گی اور ایک نئے زاویے سےآپ کو سوچنے پہ ضرور مجبور کرے گی، میرا دعوی ہے ۔۔
میں ہمیشہ سے ﷲ سے اچھے تعلقات کا متمنی رہا ہوں، پہلے پہل جب ممتاز مفتی صاحب کو پڑھتا تو ﷲ پاک سے تعلق کو ایسا بتاتا جیساایک دوست ہو اور ہمہ وقت اس سے جیسے چاہے گفتگو کرتا، جب یہ بات میں علماء سے پوچھتا تو وہ بتاتے “ وہ خالق ہے ، مالکہے کوئی دوست نہیں” میں ڈر جاتا کہیں بد ادبی نہ ہوجائے، اب جب میں مختلف لوگوں کو پڑھتا ہوں ﷲ سے میرا تعلق مضبوط ہوتاجا رہا ہے، میں ایسا سمجھتا ہوں کہ ﷲ میرے نزدیک ہے اور میں باتیں کر سکتا ہوں، دل کا حال سنا سکتا ہوں، وقت بے وقتجب چاہے دل کا حال سنا سکتا ہوں، بلکل یہی کیفیت ناول پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہوتی ہے کہ ﷲ کا تعلق سب سے ایسا ہےاس کے لئے کوئی علم کی ضرورت نہیں، کسی مرتبہ کی ضرورت نہیں، کسی اچھے ذات سے ہونا ضروری نہیں، بس کسی چیز کیضرورت ہے تو وہ “بندگی” کی ہے “احساس” کی ہے۔
٭فہیم الر حمٰن٭
#FaheemurRehman
#Faheem_ur_Rehman
0 Comments